درس قرآن (۲) : سورہ فاتحہ Dars E Quraan Jamia Akkalkuwa

 قرآن کریم کی سب سے پہلی سورت، سورہ فاتحہ کا تعارف

درس کے موضوعات

سورۂ فاتحہ ایک نظر میں
سورہ فاتحہ کے مضامین
سورۃ فاتحہ کے فضائل
خلاصہ سورة فاتحہ

اگر آپ یہ درس سن نا چاہتے ہیں تو نیچے دی گئی ویڈیو کے ذریعہ سن سکتے ہیں۔




اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ اْلأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلَى ءَالِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِيْن وبعد
        سورۂ فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ؛ بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی ؛ بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشأ بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے سب سے پہلے اپنے خالق ومالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے ؛ چناچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ کیا ہے ؟(آسان ترجمہ قرآن)
سورۂ فاتحہ ایک نظر میں
        اس مختصر اور سات آیتوں پر مشتمل چھوٹی سی سورت کو ایک مسلمان ، رات دن میں کم از کم سترہ مرتبہ دہراتا ہے اور جب وہ سنتیں پڑھتا ہے تو یہ تعداد اس سے بھی دو چند ہو جاتی ہے اور اگر کوئی فرائض وسنن کے علاوہ نوافل بھی پڑھتا ہے تو وہ اسے بیشمار مرتبہ دہراتا ہے .اس سورت میں اسلامی عقائد کے بلند اصول ، اسلامی تصور حیات کے کلیات و مبادی اور انسانی شعور اور انسانی دلچسپیوں کے لئے نہایت ہی اہم اصولی ہدایات بیان کی گئی ہیں -(فی ظلال القرآن)
سورہ فاتحہ کے مضامین
سورہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد و ثناء کا پہلو ہے کچھ دعاء و درخواست هے۔
سورۃ فاتحہ کے فضائل
احادیث شریفہ میں سورۃ فاتحہ کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری ص ٦٤٢ ج ٢ میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فاتحہ کو اعظم سورۃ فی القرآن (یعنی قرآن کی عظیم ترین سورت) فرمایا۔ سنن ترمذی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فاتحہ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی قسم اس جیسی سورت نہ توریت میں اتاری گئی نہ انجیل میں نہ زبور میں نہ قرآن میں (باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب) حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فاتحہ کو افضل القرآن بتایا۔ (درمنثورص ٥ ج ١) بعض احادیث میں سورۃ فاتحہ کو دوتہائی قرآن کے برابر فرمایا ہے۔ (درمنثورص ٥ ج ١)
حضرت ابوامامۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں اس خزانہ سے اتاری گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے۔ ان چار کے علاوہ اس میں سے کوئی چیز نہیں اتاری گئی (١) ام الکتاب (٢) آیۃ الکرسی (٣) سورۃ بقرہ کی آخری آیات (٤) سورۃ کوثر۔ (درمنثورص ٥ ج ١ عن الطبرانی والضیاء المقدسی فی المختارۃ)
حضرت مجاہد تابعی (رض) نے فرمایا کہ ابلیس ملعون چار مرتبہ رویا، ایک تو اس وقت رویا جب سورۃ فاتحہ نازل ہوئی، دوسرے اس وقت جب وہ ملعون قرار دیا گیا، تیسرے جب زمین پر اتارا گیا، چوتھے جب سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔ (درمنثورص ٥ ج ١)
صحیح مسلم ص ٢٧١ ج ١ میں ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) فخر عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا، ایک فرشتہ نازل ہوا، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا۔ اس فرشتہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور عرض کیا کہ آپ خوشخبری سن لیجئے، دو نور آپ کو ایسے ملے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے : (١) فاتحۃ الکتاب (٢) سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں (ان میں دعا ہے اور چونکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہے اس لیے مقبول ہے ) ان دونوں میں سے جو بھی کچھ تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا سوال پورا فرمائیں گے۔(انوارالبيان)
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورۃ فاتحہ) میرے اور بندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے کیونکہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعاء و درخواست کا اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ (آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی (مظہری )(معارف القرآن شفيعي)
خلاصہ سورة فاتحہ
 اس میں توحید، قیامت، رسولوں کی رسالت، شہداء وصالحین، مجاہدین وعلماء کا بیان ہے آخری آیت میں مردود لوگوں کا ذکر ہے(فوائدالقرآن)
(آسان ترجمہ قرآن،معارف القرآن شفیعی،تفسیرمظہری ،فی ظلال القرآن، انوار البیان،فوائدالقرآن)

Post a Comment

0 Comments