درس قرآن (۳) : اعوذ باللہ، اور بسم اللہ Dars e Quraan 3 Jamia Akklakuwa

 درس قرآن (۳) : اعوذ باللہ، اور بسم اللہ

 


درس کے موضوعات

تعوذ کی ضرورت

تعوذ بطور ذکر

تعوذ کا مطلب

استعاذہ اور بسم اللّٰہ کی حقیقت

بسم اللہ سے ابتدا

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے متعلق اہم علمی مباحث

منصور بن عمارکاواقعہ

ادب کی برکت

تعوذ کا مقصد

فوائد درس 

اگر آپ یہ درس سن نا چاہتے ہیں تو نیچے دی گئی ویڈیو کے ذریعہ سن سکتے ہیں۔



بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ امابعد!


معزز قارئین کرام!


جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اوّل تعوذ (اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھا جائے. سورۃ نحل میں ارشاد ہے : (فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) (سو جب تو قرآن پڑھنا شروع کرے تو اللہ کی پناہ مانگ شیطان مردود سے) اور اس کے بعد (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) پڑھا جائے۔


تعوذ کی ضرورت

اس دنیا میں انسان کوئی بھی کام کرنا چاہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا برائی کا توفیق ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کوئی کام ازخود انجام دے سکتا ہے مگر یہ کہ ہر قدم پر نصرت خداوندی کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر جب کوئی آدمی نیک کام انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں تاکہ یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے ۔ طرح طرح کے شرور اور فتنے راستے میں حائل ہوتے ہیں اسی لئے انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی بھی اچھائی کا کام شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرلے انسان کے حق میں علم اور عمل دو مفید ترین چیزیں ہیں اور ہر انسان ان دونوں چیزوں کا محتاج ہے۔ علم میں عقیدہ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا عقیدہ اور فکر پاک ہو مگر تمام انسان اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ ہر انسان اپنی قوت کے بھروسے پر یہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال نہ ہو عمل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی اچھا عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی اعانت ونصرت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔(معالم العرفان)


جب کسی مکان میں رہنے کا ارادہ کیا جاتا ہے تو اس کو تکلیف دینے والی چیزوں سے صاف ستھرا کرتے ہیں پھر اس کو زینت دیتے ہیں یعنی رنگ و روغن کرتے ہیں۔ اسی طرح سے جب تلاوت شروع کریں تو پہلے اپنے دل کو شیطان مردود کے وسوسوں سے پاک کریں۔ اس کے لیے (أَعُوْذُ باللّٰہِ) (آخر تک) پڑھی جائے ۔ پھر اللہ کا نام لے کر دل کو مزین کریں۔ نماز میں سب سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے اور اس کو شروع کرنے سے پہلے دل کو شیطانی وسوسوں سے صاف کیا جاتا ہے اور اللہ کے نام سے دل کو مزین کیا جاتا ہے۔ جب آدمی نماز شروع کرے تو ان چیزوں سے ذہن فارغ کرلے جن میں شیطان لگائے رہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل بنانے والی ہیں۔(انوار البیان)


تعوذ بطور ذکر

جب آپ قرآن پاک پڑھیں تو پہلے اللہ کی ذات کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگیں تعوذ کا معنی پناہ طلب کرنا ہے قرآن وسنت میں مختلف شرور اور فتنوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے چناچہ قرآن پاک کی تلاوت سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا سنت ہے۔


تعوذ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ایک قسم ہے ۔۔(معالم العرفان)


تعوذ کا مطلب

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم


ترجمہ:پناہ پکڑتا ہوں اور حمایت ڈھونڈتا ہوں خدا تعالیٰ کی بہکانے اور پھسلانے سے شیطان مردود کے


جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن کی ابتداء سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا سنت ہے جس کے معنی ہیں کہ شیطان مردود کے فتنہ سے اللہ کی پناہ میں آنے کی درخواست کرتا ہوں۔ کما قال تعالیٰ فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ اس لیے کہ استعاذہ شیطان کے مکر اور شر سے بچنے کے لیے تریاق کا حکم رکھتا ہے۔ کما قال تعالیٰ واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باللہ انہ سمیع علیم ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطن تذکروا فاذاھم مبصرون اور عطا یہ کہتے ہیں کہ ہر قراءت کے شروع میں استعاذہ واجب ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں ۔


استعاذہ اور بسم اللّٰہ کی حقیقت


استعاذہ کی حقیقت یہ ہے کہ شیطان کے جال میں پھسنے سے محفوظ ہوجائے اور بسم اللہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوجائے اس لیے استعاذہ بسم اللہ پر مقدم ہوا۔ کیونکہ دفع مضرت، جلب منفعت پر مقدم ہے۔ نیز قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی تلاوت سے پہلے زبان اور قلب کی طہارت ضروری ہے۔ اس لیے تلاوت قرآن سے پہلے استعاذہ کا حکم دیا گیا تاکہ زبان اور قلب کو ایک گونہ طہارت حاصل ہوجائے۔


(معارف القرآن کاندھلوی)


بسم اللہ سے ابتدا

ہر جائز کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کی بڑی فضیلتیں حدیث میں وارد ہوئی ہیں ۔ اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک یہی تھی کہ کھانا کھاتے ، پانی پیتے ، وضو کرتے ، جانور ذبح کرتے ، غرض اس قسم کے سارے کاموں کی ابتدا بسم اللہ ہی سے کرتے ۔ اور ہے بھی یہی کہ جو شخص کسی کام کو خدائے رحمن ورحیم کا نام لے کر شروع کرتا ہے ، وہ عملا اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ میرا ضمیر پاک ہے ، میری نیت مخلصانہ ہے ، میرا مقصد اعلی ہے اور میں توحید کا پرستار ہوں ۔ ایک طرف شرک سے اور دوسری طرف الحاد سے بیزار ۔ غرض بسم اللہ سے بڑھ کر قوت بخش اور اس سے زیادہ روح واخلاق کو بلند کرنے والا ذکر کوئی اور نہیں ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے والا گویا یوں کہتا ہے کہ میں شروع کرتاہوں اس کلام کو اللہ کے نام سے مدد چاہتے ہوئے ، اور یہ کہہ کر بسم اللہ خواں اپنی اور سب کی طرف سے قطع نظر کرکے تکیہ کرلیتا ہے اللہ کی ذات اور اس کی صفات رحمانیت ورحیمیت پر ۔(تفسیر ماجدی)


عبد القادر الرہاوی نے اربعین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت سے بیان کیا کہ رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بڑا کام بسم اللہ سے شروع نہ ہو وہ نا تمام رہے گا۔(تفسیرمظہری)


بسم اللہ الرحمن الرحیم کے متعلق اہم علمی مباحث

بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کریم کی ایک آیت ہے اور قرآن کریم کا آغاز اسی سے ہوتا ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی مکتوب تحریر کرواتے ان میں سب سے پہلے بسم اللہ شریف لکھی جایا کرتی تھی۔


ابو عبدالقاسم بن سلامہ کی کتاب فضائل القرآن میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی طرف جو مکتوب ارسال فرماتے سب سے پہلے لکھتے باسمک اللھم جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہی طریقہ رہا پھر (آیت)” بسم اللہ مجرھا “۔ والی آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بسم اللہ لکھوانے لگے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہی دستور جاری رہا ، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ۔


(آیت)” انہ من سلیمن و انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوانے لگے ۔


منصور بن عمارکا واقعہ

منصور بن عمار جو بڑے حکیم ودانا تھے ان کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہیں راہ چلتے ایک کاغذ پڑا ہوا ملا جس میں بسم اللہ لکھی ہوئی تھی ، انہوں نے وہ کاغذ اٹھایا اور کوئی جگہ اس کے رکھنے کو نہ پائی تو اسے نگل لیا ، رات کو خواب دیکھا کہ کوئی آدمی کہہ رہا ہے ” اے منصور تو نے جو اس کاغذ کی عزت کی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تجھ پر حکمت کا دروازہ کھول دیا ہے “ اس وقت سے وہ جو بات بھی کرتے دانائی کی کرتے تھے ۔


ادب کی برکت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے جس کاغذ میں اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم مبارک لکھا ہو اور وہ زمین پر گرا ہوا ہو جب تک اللہ تعالیٰ اس کو اٹھانے کے لیے اپنا کوئی دوست نہیں بھیجتے فرشتے اپنے بازوں سے اسے گھیرے رکھتے ہیں اور جو شخص اسے وہاں سے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے علیین میں بلند مرتبہ عطا فرماتے ہیں ۔


حضرت بشر بن حارث حافی (رح) کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے دیکھا کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا سرراہ پڑا ، پاؤں کے نیچے روندا جا رہا ہے انہوں نے اسے اٹھایا تو اس میں اللہ تعالیٰ کا نام مبارک لکھا ہوا تھا انہوں نے ایک درہم کا عطر خرید کر اسے لگایا اور دیوار کی دراز میں دیدیا رات کو سوئے تو خواب میں دیکھا کوئی کہہ رہا ہے اے بشر تو نے میرے نام کو معطر کیا ہے ، میں تیرے نام کو دنیا وآخرت میں معطر کروں گا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بڑے بڑے مالداروں کے نام مٹ گئے لیکن اس فقیر کا نام جس کے پاؤں میں جوتا تک نہ ہوتا تھا آج تک زندہ ہے اور زندہ رہے گا ۔


رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرمی ہے کہ اپنے خطوں اور رسالوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا کرو اور لکھتے وقت زبان سے پڑھا بھی کرو۔(تفسیر بغوی)


بسم اللہ سے ابتدا

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بسم اللہ میں دوچیزیں بطور خاص پائی جاتی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور دوسرے اس پر توکل جب کوئی شخص کسی کا رخیر کو شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے پروردگار اللہ جل جلالہ پر ایمان رکھتا ہوں اور اسی کے بھروسے پر یہ کام شروع کرتا ہوں۔(معالم العرفان)


تعوذ کا مقصد

واضح رہے کہ تعوّذ کا مقصد ہر شریر کے شر  سے اللہ رب العزت کی پناہ میں آنا ہوتا ہے خواہ وہ شریر انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے، تلاوت کے شروع میں بھی تعوّذ اسی لیے پڑھا جاتا ہے کہ تلاوت کے دوران شیطان کے وسوسوں سے حفاظت ہو سکے،اور تسمیہ کا مقصد اللہ رب العزت کے مبارک نام سے برکت حاصل کرنا ہے، علماء نے صراحت کی ہے کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے  ،حتیٰٰ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہر وہ کام جو اہمیت رکھتا ہو اور اس کی ابتدا ء میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ ناقص اور ناتمام رہتا ہے۔


 


قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے تعوذ کے ذریعہ شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا حکم خود قرآن میں موجود ہے، تلاوت کی ابتداء  کے علاوہ بھی احادیث مبارکہ میں  بعض مخصوص حالات میں تعوذ کی تاکید آئی ہے، جیسا کہ بیت الخلا جاتے وقت،  غصہ کی شدت میں، نیند میں ڈر جانے کے وقت وغیرہ،نیز انسان اپنے ہر قول اور ہر فعل میں اس بات کا محتاج ہے کہ اسے شیطان کے شر سے پناہ نصیب ہو اس اعتبار سے انسان کو چاہیے کہ اپنے ہر کام سے پہلے تعوذ کے کلمات ادا کر کے شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرے، تاہم قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ عام کلام اور گفتگو  کی ابتدا میں تعوذ پڑھنا مسنون نہیں ہے۔


فوائد درس

1: قرآت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا باجماع امت سنت ہے۔ خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا خارج۔ (شرح منیہ)


2: تعوذ پڑھنا تلاوت قرآن کے ساتھ مخصوص ہے۔ علاوہ تلاوت کے دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم اللہ پڑھی جائے۔ تعوذ مسنون نہیں (عالمگیری) ۔


3:جب قرآن شریف کی تلاوت کی جائے اس وقت اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں پڑھنی چاہئیں .


3:درمیان تلاوت کے جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری شروع ہو تو سورة برآت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللّٰہ  مکرر پڑھی جائے۔ اعوذ باللہ نہیں۔


4: اور سورة برآت (سورۂ توبہ) اگر درمیان تلاوت میں آجائے تو اس کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھے


5: اور اگر قرآن کی تلاوت سورة برآت ہی سے شروع کر رہا ہے تو اس کے شروع میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنا چاہیے (عالمگیری)


6:شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ قرات کے علاوہ باقی عبادات شروع کرتے وقت صرف بسم اللہ پڑھنا چاہیے جبکہ قرات سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا ضروری ہے ۔


7:انسان اپنے ہر قول اور ہر فعل میں اس بات کا محتاج ہے کہ اسے شیطان کے شر سے پناہ نصیب ہو اس اعتبار سے انسان کو چاہیے کہ اپنے ہر کام سے پہلے تعوذ کے کلمات ادا کر کے شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرے، تاہم قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ عام کلام اور گفتگو  کی ابتدا میں تعوذ پڑھنا مسنون نہیں ہے۔


(معالم العرفان )


(معارف القرآن کاندھلوی،تفسیرماجدی،معالم العرفان،تفسیربغوی،تفسیرمظہری،انوارالبیان)

Post a Comment

0 Comments