احكامِ اعتكافِ مسنون,Etikaf Ke Masail ,एतिकाफ़ के मसाइल

احكامِ اعتكافِ مسنون

(گذشتہ تمام دروس کے لئے کلک کریں)

اعتکاف مسنون کا وقت:

                    رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے وہ اعتکافِ مسنون ہے۔ اس اعتکاف کا وقت بیسواں روزه پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے، اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے، چوں کہ اس اعتکاف کا آغاز اکیسویں شب سے ہوتا ہے، اور رات غروبِ آفتاب سے شروع ہو جاتی ہے، اس ليے اعتکاف کرنے والے کو چاہيے کہ بیسویں روزے کو مغرب سے، اتنے پهلے مسجد کی حدود میں پہنچ جائے کہ غروبِ آفتاب مسجد میں ہو۔

                   رمضان شریف کے عشرہٴ اخیرہ کا یہ اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی ایک بستی یا محلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے، تو تمام اہلِ محلہ کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی، لیکن اگر سارے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا، تو سارے محلے والوں پر ترکِ سنت کا گناہ ہوگا ۔ (شامی )

محلے والوں کی ذمہ داری اور اُجرت پر اعتكاف:

                   ہر محلے والوں کی يه ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے یہ تحقیق کریں کہ ہماری مسجد میں کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھ رہا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی آدمی نہ بیٹھ رہا ہو تو فکر کر کے کسی کو بٹھائیں۔ لیکن کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانا جائز نہیں، کیوں کہ عبادت كے ليے اُجرت دینا اور لینا دونوں نا جائز ہیں۔ (شامی)

اگر آپ تحریر سن نا چاہتے ہیں تو کلک کریں!!

Video is Under Prosess

دوسرے محلے والے کو اعتکاف میں بٹھانا:

                   اگر محلے والوں میں سے کوئی شخص بھی کسی مجبوری کی وجہ سے اعتکاف میں بیٹھنے کے ليے تیار نہ ہو، تو کسی دوسرے محلے کے آدمی کو اپنی مسجد میں اعتکاف کرنے کے ليے تیار کر لیں، دوسرے محلے کے آدمی کے بیٹھنے سے بھی اس محلے والوں کی سنت اِن شاء اللہ ادا ہو جائے گی ۔ ( فتاویٰ دار العلوم دیو بند مکمل: 6/512 )

اعتکاف کے ارکان:

اعتکاف ایک اہم عبادت ہے اور اس کے چار ارکان ہیں:

(1) اعتکاف کی نیت اور ارادہ ہونا۔

(۲) مسلمان اور عاقل ہونا۔

(۳) مرد کے لیے جنابت اور عورت کے لیے حیض اور نفاس سے خالی اور پاک ہونا۔

(۴) معتکف کا مسجد میں ہونا۔


اعتکاف کی شرطیں:

                   جس مسجد میں اعتکاف کیا جائے اس میں پانچوں وقت نماز با جماعت ہوتی ہو۔ اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا، لہذا بے قصد و ارادہ ٹھہر جانے کو اعتکاف نہیں کے کہتے۔ حیض اور نفاس (ماہواری اور زچکی کے خون سے خالی اور پاک ہونا اور جنابت (ناپاکی) سے پاک ہونا ضروری ہے، بالغ ہونا یا مرد ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں، نابالغ مگر سمجھ دار مرد اور عورت کا اعتکاف بھی درست ہے۔

اعتکاف میں خاموشی:

                    اعتکاف کی حالت میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے، وہاں بری باتیں زبان سے نہ نکالے، غیبت نہ کرے، بل کہ قرآن شریف کی تلاوت یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے یا کسی اور عبادت میں اپنے اوقات صرف کرے، خلاصہ یہ کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں، اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں ہے، پھر بھی اچھی اور عمدہ باتیں کرنی چاہئیں۔ (خطبات رحیمی :7/ 56)

اعتكاف كا ركنِ اعظم:

                   اعتکاف کا رکنِ اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود میں رہے، اور حوائجِ ضروریہ کے سوا ایک لمحے کے ليے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلے، کیوں کہ اگر ایک لمحے کے ليے بھی شرعی ضرورت کے بغیر حدودِ مسجد سے باہر چلا جائے، تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

حدودِ مسجد کا مطلب:

                   بہت سے لوگ حدودِ مسجد کا مطلب نہیں سمجھتے، اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اس ليے خوب اچھی طرح سمجھ لیجيے كہ حدودِ مسجد کا کیا مطلب ہے؟

                   عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں، لیکن شرعی اعتبار سے یہ پورا احاطہ مسجد ہونا ضروری نہیں، بل کہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانیٴ مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو۔

                   اس کی تفصیل یہ ہے کہ زمین کے کسی حصے کا مسجد ہونا اور چیز ہے اور مسجد کے ليے وقف ہونا اور چیز ، شرعاً مسجد صرف اتنے حصے کو کہا جائے گا جسے بنانے والے نے مسجد قرار دیا ہو، یعنی نماز پڑھنے کے سوا اس سے کچھ اور مقصود نہ ہو، لیکن تقریباً ہر مسجد میں کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے جو شرعاً مسجد نہیں ہوتا، لیکن مسجد کی ضروریات كے ليے وقف ہوتا ہے، مثلاً وضو خانہ، غسل خانہ، استنجا کی جگہ، نمازِ جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام کا حجرہ ، گودام وغیرہ ۔ اس حصے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے، چناں چہ ان حصوں میں جنابت کی حالت میں جانا بھی جائز ہے، جب کہ اصل مسجد میں جنبی (ناپاک شخص) کا داخل ہونا جائز نہیں۔ ضروریاتِ مسجد والے اِس حصے میں معتكف کا جانا بالکل جائز نہیں ہے، بل کہ اگر معتکف اس حصے میں شرعی عذر کے بغیر ایک لمحے کے ليے بھی چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

                   پھر بعض مساجد میں تو ضروریاتِ مسجد والا حصہ اصل مسجد سے بالکل الگ اور ممتاز ہوتا ہے، جس کی پہچان مشکل نہیں ہوتی، لیکن بعض مساجد میں یہ حصہ اصل مسجد سے اس طرح متصل ہوتا ہے کہ ہر شخص اسے نہیں پہچان سکتا، اور جب تک بانیٴ مسجد صراحةً نہ بتائے کہ یہ حصہ مسجد نہیں ہے اس وقت تک اس کا پتہ نہیں چلتا۔ لهٰذا جب کسی شخص کا کسی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو تو اسے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہيے کہ مسجد کے بانی یا اس کے متولی سے مسجد کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرے، مسجد والوں کو بھی چاہيے کہ وہ مسجد کو حتی الامکان واضح اور ممتاز رکھیں، اور بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں ایک نقشہ مرتب کر کے لٹکا دیا جائے، جس میں مسجد کی حدود واضح کر دی گئی ہوں، ورنہ کم از کم بیسویں روزے کو جب معتکفین مسجد میں جمع ہوجائیں، تو انہیں زبانی طور پر سمجھا دیا جائے کہ مسجد کی حدود کہاں سے کہاں تک ہیں؟

مسجد کا وضو خانہ:

                   جن مسجدوں میں وضو خانے اصل مسجد سے متصل ہوتے ہیں عام طور سے لوگ وضو خانوں کو بھی مسجد کا حصہ سمجھتے ہیں اور اعتکاف کی حالت میں بے کھٹکے وہاں آتے جاتے رہتے ہیں، خوب سمجھ لینا چاہيے کہ اس طرح اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے، وضو خانے مسجد کا حصہ نہیں ہوتے، اور معتكف کے ليے وہاں شرعی ضرورت کے بغیر جانا جائز نہیں ہے، لہٰذا اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے منتظمینِ مسجد کی مدد سے واضح طور پر یہ معلوم کر لینا ضروری ہے کہ مسجد کی حدود کہاں ختم ہوگئی ہیں، اور وضو خانے کی حدود کہاں سے شروع ہوئی ہیں۔

مسجد کی سیڑھیاں:

                   اسی طرح مسجد کی سیڑھیاں جن پر چڑھ کر لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہیں، وہ بھی عموماً مسجد سے خارج ہوتی ہیں، اس ليے معتكف کو شرعی ضرورت کے بغیر وہاں جانا بھی جائز نہیں ہے۔

مسجد کا حوض:

                   بعض مسجدوں کے صحن میں جو حوض بنا ہوتا ہے وہ بھی مسجد سے خارج ہے، لہٰذا اس کے بارے میں بھی یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ حوض کے قریب مسجد کی حدود کہاں تک ہیں؟ اور حوض کی حدود کہاں سے شروع ہوئی ہیں؟

نمازِ جنازہ کی جگہ:

                   جن مسجدوں میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی جگہ الگ ہوتی ہے وہ بھی مسجد سے خارج ہوتی ہے معتكف کو وہاں جانا بھی جائز نہیں ہے۔

رہائش کی جگہ:

                   بعض مساجد میں امام کی رہائش کے ليے مسجد کے ساتھ ہی کمرہ بنا ہوتا ہے، یہ کمرہ بھی مسجد سے خارج ہوتا ہے، اور اس میں معتكف کا جانا جائز نہیں۔

                   بعض مسجدوں میں ایسا کمرہ امام کی رہائش کے ليے تو نہیں ہوتا، لیکن امام کی تنہائی کی ضروریات کے ليے بنایا جاتا ہے، اس کمرے کو بھی جب تک بانیٴ مسجد نے مسجد قرار نہ دیا تو اس وقت تک اسے مسجد نہیں سمجھا جائے گا اور معتكف کو اس میں بھی جانا جائز نہیں، ہاں! اگر بانیٴ مسجد نے اس کے مسجد ہونے کی نیت کر لی ہو تو پھر معتکف اس میں جا سکتا ہے۔

مسجد سے متصل مکتب کا حکم:

                   بعض مساجد میں اصل مسجد کے بالکل ساتھ بچوں کو پڑھانے کے ليے جگہ بنائی جاتی ہے، اس جگہ کو بھی جب تک بانیٴ مسجد نے مسجد قرار نہ دیا ہو اس وقت تک معتکف کے ليے اس میں جانا جائز نہیں۔

مسجد کا اسٹور روم:

                   بعض مساجد میں مسجد کی دریاں صفیں، چٹائیاں اور دیگر سامان رکھنے کے ليے (اسٹور روم) الگ کمرہ یا کوئی جگہ بنائی جاتی ہے، اس جگہ کا حکم بھی یہی ہے کہ جب تک بنانے والے نے اسے مسجد قرار نہ دیا ہو، یہ جگہ مسجد نہیں ہے، اور معتكف اس میں نہیں جاسکتا۔

                   اس تفصیل سے واضح ہوا ہوگا کہ اعتکاف کے ليے مسجد کی حدود کو معین کرنا کس قدر ضروری ہے، لہٰذا معتكف کو چاہيے كه وہ اعتکاف شروع کرنے سے پہلے منتظمینِ مسجد سے مسجد کو اچھی طرح معین کرالے۔

                   پھر جب مسجد کی حدود معلوم ہوجائیں تو اس کے بعد اعتکاف کے دوران شرعی ضرورت کے بغیر ان حدود سے ایک لمحے کے ليے بھی باہر نہ نکلیں ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔


مأخذ : (احكامِ اعتكاف از حضرت مولانا مفتي محمد تقي عثماني صاحب مد ظله، بحواله: ماهنامه البلاغ: ص/13 تا 24)


شائع کردہ:                                 

سوشل میڈیا ڈیسک جامعہ اکل کوا


جامعہ اکل کوا سے اپڈیٹ رہنے کے لئے ہمیں فالو کریں!!



Post a Comment

0 Comments