درس قرآن (۱) : تعارف قرآن
درس کے موضوعات
- تعارف قرآن
- نزولِ قرآن
- وحی تعریف و اقسام
- تاریخ نزولِ قرآن
- معلومات قرآن
- قرآن کریم کے نام
- فہم قرآن
- قرآن کریم ہدایت کے لیے ہے
- قرآن کریم کے بنیادی حقوق درج ذیل ہیں:
- زوال امت کا اصل سبب و اصلاح معاشرہ
- حالات حاضرہ میں ضرورت
- تفسیر قرآن عبادت ،سعادت اور ضرورت
اگر آپ یہ درس سن نا چاہتے ہیں تو نیچے دی گئی ویڈیو کے ذریعہ سن سکتے ہیں۔
تعارف قرآن
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے ۔وہ ایسی واحد کتاب ہے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء۔ قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اسے پڑھنے اور سمجھنے کا شعور اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک اس کی اہمیت کا احساس نہ ہو۔
نزولِ قرآن
نزولِ قرآن بذریعہ وحی نازل ہوتا تھا ۔
وحی کی لغوی تعریف: 'الْإِعْلَام فِي خَفَاء'۔ (پوشیدہ بات کی خبر دینا)۔
اصطلاحی تعریف: 'هُوَ كَلَام الله الْمنزل على نَبِي من أنبيائه وَالرَّسُول'۔
یعنی انبیاءِ کرام پر نازل ہو نے والے اللہ کے کلام کو وحی کہتے ہیں ۔
پھر وحی کی دو قسمیں ہیں :
(1) وحی متلو ، (2) وحی غیر متلو ۔
وحی متلو: ایسی وحی ہے جس کے الفاظ و معانی دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوں ۔
وحی غیر متلو: ایسی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر صرف معانی و مضامین کی شکل میں القا کی گئی ہو ۔اوران معانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے کبھی اپنے الفاظ سے اور کبھی اپنے افعال سے اور کبھی دونوں سے بیان فرمایا ہو۔ (مستفاد: امداد الاحکام ۱؍۵۴)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی:
۱:- گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
۲:- فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
۳:- حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔
۴:- بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔
۵:- حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔
تاریخ نزولِ قرآن
ماہِ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اُتریں، وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔
معلومات قرآن
قرآن مجید میں ۳۰ پارے ، ۱۱۴ سورتیں ، ۵۵۸ رکوع اور ۶۲۳۶ آیات ہیں۔ پہلی سورۃ الفاتحہ اور آخری سورۃ الناس ہے۔ سب سے بڑی سورۃ البقرہ ہے اور سب سے چھوٹی سورۃ الکوثر رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی و عظمت بیان کرنے والی بڑی آیت آ یت الکرسی ہے۔ سورة كم از کم تین آیات پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر سورۃ کا ایک خاص مضمون و موضوع ہوتا ہے۔ جس کی ابتداء میں سورۃ توبہ کے علاوہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ لکھا گیا ہے۔
قرآن کریم کے نام
قرآن مجید کا اصل نام یہی القرآن ” ہے لیکن علماء کرام نے اس کے علاوہ بھی بہت سارے نام شمار کیے ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں :
(۱) القرآن : کلام پاک کا یہ اصلی اور ذاتی نام ہے۔
(۲) الفرقان : حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب۔
(۳) الذکر : نصحیت کرنے والی کتاب۔
(۴) الکتاب : خاص کتاب یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید۔
(۵) الہدی : راہ دکھانے والی کتاب
( ۶ ) النور : روشنی والی کتاب
(۷ ) الحق : ثابت شدہ کتاب
(۸ ) الشفاء : یعنی جسمانی و روحانی بیماریاں ختم کرنے والی کتاب۔
(۹) التنزيل : اتاری ہوئی کتاب۔
فہمِ قرآن
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر و تفکُّر کرنے کا حکم دیا ہے، مگر یہ تدبُّر و تفکُّر مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے: ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘ (النحل :۴۴) ’’ یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لیے اُتاری ہے، تاکہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔‘‘ (النحل: ۶۴) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمتِ مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔ صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال یعنی حدیثِ نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے اُمتِ مسلمہ کوپہنچی ہے، لہٰذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
قرآن کریم ہدایت کے لیے ہے
قرآن کریم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس کتاب کے نزول کا ایک اہم ہدف ہدایتِ انسانیت قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقان؛ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جوکہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور یہ قرآن آشکار واضح ہدایت و فرقان ہے۔ ہدایت قرآن کریم کا وسیع موضوع ہے۔ قرآن کریم نے ہدایت کی مختلف اقسام بیان کی ہیں جیسے ہدایت تکوینی، ہدایت تشریعی عام، ہدایت تشریعی خاص وغیرہ۔ اللہ تعالی نے ہدایت کے لیے ہر قوم میں ہادی اور بشیر و نذیر بھیجے اور آسمانی کتب و صحیفے نازل فرمائے اور قرآن کریم کو ان میں سے اہم وسیلہ و سبب ہدایت قرار دیا جیساکہ مختلف آیات میں اس کا بیان آیا ہے۔ نیز قرآن کریم نے ہدایت کی نوعیت کو بھی بیان کیا ہے کہ قرآن کریم بالکل سیدھی راہ کی طرف انسان کی ہدایت فرماتا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: إِنَّ هذَا الْقُرْآنَ يَهْدي لِلَّتي هِيَ أَقْوَمُ؛ بے شک یہ قرآن ہدایت کرتا ہے اس طرف جو سیدھی راہ ہے۔
قرآن کریم کے بنیادی حقوق درج ذیل ہیں:
۱۔ قرآن پر ایمان لانا ۲۔ قرآن کا پڑھنا ۳۔ قرآن کا سمجھنا ۴۔ قرآن پر عمل کرنا ۵۔ قرآن کی تبلیغ کرنا ۔
زوال امت کا اصل سبب و اصلاح معاشرہ
اگر تاریخ سے سوال پوچھا جائے کہ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے یہ امت کیوں رو بہ زوال ہے ؟ تو تاریخ ہمیں اس کا جواب دے گی کہ”انَّ اللہَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنْفُسِھِمْ“۔ ”اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب کہ وہ خود( اپنے ارادے و اختیار سے )اپنے حالات و نفسیات نہ بدل لیں “۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس سلسلے میں شیخ الہندرحمہ اللہ کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیو ں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں گا کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناعام کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے “آگے مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں ” ․․․․ حضرت نے جو باتیں فرمائیں ہیں، اصل میں وہ دو نہیں ایک ہی ہے ․․․․اس لیے ہمارے اختلاف میں شدت اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اس لیے کہ قرآن مرکز تھا اور جب وہ اس مرکز سے دور ہوتے چلے گئے تو ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے چلے گئے“ ۔
یہ بالکل سادہ سی بات ہے واقعی اگر قرآن پر کسی درجہ میں عمل کیا جاتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔آج سے چند سال پہلے مسلم محلوں سے گزرنے والا یہ لازماً محسوس کرلیتاتھا کہ یہ مسلم محلہ ہے اور اس علاقے اور محلے میں قرآن کی برکت سے الگ ہی قسم کی رونق ہوا کرتی تھی ۔ ” آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں گذرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے، لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی ، اب تو تلاوت بھی نہیں ہوتی ، غور و فکر اور تدبر کا تو سوال ہی نہیں ، کون سیکھے اور کون پڑھے ؟ عربی سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو تو ہم سیکھیں ، ہم انگریزی پڑھیں گے اور ایسی پڑھیں گے کہ انگریزوں کو پڑھادیں؛ لیکن عربی سیکھنے کے لیے کوئی بھی وقت نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔
حالات حاضرہ میں ضرورت
”لَنْ یَصْلح ھَذِہ الأمَّةُ الاَّ بِمَا صَلُحَ بِہ أوَّلُھا“
”ان حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے، ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی، اور ہم عزت وسربلندی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے،ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے، ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے ، اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے کھلے گا۔“
تفسیر قرآن عبادت ،سعادت اور ضرورت
قرآن فہمی بہت بڑی عبادت و سعادت ہے، لہٰذا تلاوت ِ قرآن کے ساتھ مستند تفاسیر کے ذریعے معانیِ قرآن بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت اِیاس بن معاویہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جو لوگ قرآنِ مجید پڑھتے ہیں اور وہ ا س کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال اُن لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے ؟ اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور ا س کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔ (تفسیر قرطبی، باب ما جاء فی فضل تفسیر القرآن واہلہ، ۱/۴۱، الجزء الاول، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
(معارف القرآن،علوم القرآن ،ماہنامہ دارالعلوم،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن, مضمون مفتی محمد نجیب قاسمی سنبھلی،اردونوٹ )
0 Comments